Wednesday, 16 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Abu Nasr
    4. Saalon Ne Pas Kar Diya Susral Ka Budget

    Saalon Ne Pas Kar Diya Susral Ka Budget

    کم کم سہی، بہار کا ساماں ہوا تو ہے۔ شکر ہے کہ کچھ نشریاتی اداروں سے دل کش اُردو اصطلاحات سننے کو ملنے لگی ہیں۔ آج کل جب ہر نشریاتی ادارے نے 'Growth rate'کی رٹ لگا رکھی ہے، ایک نشریاتی ادارے سے اس کی جگہ شرحِ نمو، کی شُستہ ترکیب سن کر جی خوش ہوگیا۔ نمو، کا مطلب بھی اُگنا، بڑھنا، پھلنا پھولنا اور افزائش ہے۔ گروتھ، کے مقابلے میں نمو، کا ننھا سا لفظ سماعت پر کیسا خوش گوار تاثر چھوڑتا ہے۔ شاعر کا نام ٹھیک سے یاد نہیں، شاید احمد ندیمؔ قاسمی کا شعر ہے اور کیا عمدہ شعر ہے:

    جہاں سے شاخ ٹوٹی ہے، وہیں سے شاخ پھوٹی ہے
    نمو کی قوتیں اِس زخم کو بھرنے نہیں دیتیں

    اِن کالموں میں ہم اپنے نشریاتی اداروں کو بار بار متوجہ کرتے رہے ہیں کہ اُردو میں نشریات پیش کرنے والے اداروں کو یہ ثابت کرنے کی کوشش ترک کر دینا چاہیے کہ وہ اُردو میں نشریات پیش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہماراجو نشریاتی ادارہ اُردو اصطلاحات کو استعمال کرنے میں بازی لے جائے گا، وہ معیار بن جائے گا۔ لوگ اچھی اُردو سننے اور سیکھنے کے لیے اُس سے رجوع کیا کریں گے۔ اُس کی شرحِ دید اور شرحِ خواندگی میں اضافہ ہو جائے گا۔

    قومی نشریاتی اداروں کے پیش کاروں کی خدمت میں عرض ہے کہ اُردو بولتے ہوئے انگریزی الفاظ کے ٹانکے لگانا قابلیت کی دلیل ہے نہ مہذب ہونے کی علامت۔ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقتاً یہ غیروں سے مرعوبیت اور اپنی ذہنی غلامی کا اظہارہے۔ اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ شُستہ اور شائستہ اُردو ہماراقومی و تہذیبی تفاخر ہے۔ تحریر و تقریر میں خالص اُردو استعمال کرکے دیکھیے، خود اعتمادی اور خود انحصاری کا احساس ہوگا۔ ویسا ہی احساس، جیسا معرکۂ حق میں فتح پر ہوا ہے۔ اُردو بولتے ہوئے اُردو الفاظ ذہن میں نہ آنا ذہنی برتری کی نشانی نہیں۔

    دو تین دن سے ہمارے ذرائع ابلاغ کی زبان پر بجٹ، کا لفظ بار بار آ رہا ہے۔ ہماری زبان پر توبجٹ، کا لفظ اگر ایک بار بھی آجائے تو زبان ہی خشک ہو جاتی ہے۔ انگریزی زبان کایہ لفظ، جو رومن حروف میں بَڈ گیٹ، لکھا جاتا ہے اور بجٹ، پڑھا جاتا ہے، اُردو زبان نے بھی بالآخر اسی تلفظ کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔ قبول ہی نہیں کیا، ہمارے ورقی و برقی ذرائع ابلاغ نے یہ لفظ عوام میں مقبول بھی کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ اُردو زبان کے معروف مزاح گو شاعربرادر خالدؔ عرفان نے اس لفظ کو اپنی ایک مزاحیہ غزل کی ردیف کا حصہ بھی بنا یا ہے:

    کیسا عجیب آیا ہے اس سال کا بجٹ
    مرغی کا جو بجٹ ہے، وہی دال کا بجٹ

    یہی نہیں، خالدؔ بھائی تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ پر لگنے والے محصولات کے بعد ماحصل کا خانگی بجٹ سے موازنہ بھی کربیٹھے ہیں:

    جتنی ہے اِک کلرک کی تنخواہ آج کل
    اُتنا ہے بیگمات کے اِک گال کا بجٹ

    لفظ بجٹ، استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بجٹ کے لیے اُردو میں ایک خوش آوازلفظ میزانیہ، پہلے سے موجود ہے۔ پہلے اُردو ذرائع ابلاغ میں یہی لفظ استعمال ہوتا تھا۔ اب میزانیہ، زبان پر لانے میں نہ جانے کیا خوف حارج ہوگیا ہے۔

    لفظمیزان سے تو سب ہی واقف ہیں۔ بلکہ ہمارے ذرائع ابلاغ اپنی آمدنی کا میزانیہ، بہتر بنانے کے کے لیے بات بات پر بتاتے بھی رہتے ہیں کہ "ہر چیز میزان میں اچھی لگتی ہے"۔ میزان کی اصل وَزُن، ہے۔ وَزُن، کسی چیز کے بوجھ کو کہتے ہیں۔ بوجھل چیزیں وزنی، بھی کہی جاتی ہیں۔ علمِ طبیعیات کی رُو سے کششِ ثقل کسی چیز کو جس قوت سے اپنی طرف کھینچتی ہے، اُس قوت کی پیمائش کو وزن کہتے ہیں۔ ثقل، بھی بوجھ ہی کو کہتے ہیں۔ جس چیز کی کمیت (یعنی اُس شے میں موجود مادّے کی مقدار) جتنی زیادہ ہوگی کشش ثقل کو اتنی ہی زیادہ قوت اُسے اپنی طرف کھینچنے کو لگانی پڑے گی۔ لہٰذا اس کا وزن اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ کسی شے کو تولنادر اصل اُس کے وزن کا اندازہ لگانا ہے، اسی وجہ سے تولنے کووزن کرنا، بھی کہتے ہیں۔ وزن کی جمع اوزان، ہے۔ وزن کو مجازاً وقعت، کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی حقیقت و مجاز مدغم بھی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً "حضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ اللہ ہماری قومی سیاست میں خاصا وزن رکھتے ہیں"۔

    وزن کرنے، کے لیے کوئی نہ کوئی ترازو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر قسم کے ترازو کو میزان، کہتے ہیں۔ میزان کا کام نصف وزن ایک طرف اور نصف وزن دوسری طرف کرکے دونوں طرف کا وزن برابر، برابر کر دینا ہے۔ اسی نصفا نصفی کو انصاف، کہا جاتا ہے۔ ضمناً بتاتے چلیں کہ عدل اور انصاف میں فرق ہے۔ انصاف کا مطلب ہے برابر، برابر دینا۔ جب کہ عدل یہ ہے کہ ہر حق دار کو اُس کے حق کے مطابق دیا جائے۔ کسی معاملے میں کسی کا حق کم اور کسی کا حق زیادہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً خوراک کے معاملے میں ایک بچے کا حق اور ایک کڑیل جوان کا حق مساوی نہیں ہوگا۔ گویا میزان، کا مقصد توازن برقرار رکھنا ہے۔ یہ توازن ترازُو ہی میں نہیں، زندگی میں بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ فطرت کا یہی تقاضا اوردینِ فطرت کایہی حکم ہے۔ سورۂ رحمٰن کی آیات سات تا 9 میں لگاتار تین مرتبہ میزان، کا ذکر آیا ہے: "آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ تاکہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔ انصاف کے ساتھ وزن قائم کرو اور میزان میں ڈنڈی نہ مارو"۔

    اقبالؔ کہتے ہیں کہ مسلمان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ میزان کا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنی مشہور نظم مردِ مسلمان، میں فرماتے ہیں:

    قدرت کے مقاصد کا عِیار اس کے ارادے
    دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

    عِیار، (ع پر زیر، ی، تشدید کے بغیر) کا مطلب ہے کسوٹی، یا پیمانہ۔ اِسی عِیار سے لفظ معیار، بنا ہے۔ توازن برقرار رکھنے کے اظہار کے لیے عدالتوں کا نشانِ امتیاز میزان یا ترازوہوتا ہے۔ جب ہم دو اشیا کے باہمی وزن کا اندازہ لگاتے ہیں، انھیں تولتے ہیں، جانچتے ہیں یا ان کی قدر و قیمت کا مقابلہ کرتے ہیں تو اس عمل کو مُوازَنہ، کہاجاتا ہے۔ وِزُر، بھی وزن یا بوجھ کو کہتے ہیں۔ جوشخص وِزر، اُٹھالیتا ہے اُس کو وزیر، کہتے ہیں۔ جو سارا خزانہ ہی اُٹھالے جائے اُس کو بے شک وزیرِ خزانہ، کہہ لیجیے۔ جس آلے سے کوئی وِزر، اُٹھانے میں مددلی جاتی ہے اُس آلے کو اوزار، کہا جاتا ہے۔ وِزر کی جمع بھی اوزار، ہی ہے۔ بعض اوزار ہمارے کام کا بوجھ بھی خود ہی اُٹھا لیتے ہیں۔ مگر سورۃ الفاطرکی آیت 8 1 میں آیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا:

    وَلَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزُرَاُخُریٰ

    جب حشر کا دن آئے گا، اُس روز دیکھا جائے گا۔ فی الوقت اِس دنیا میں تووزیروں کا بوجھ بھی عوام ہی کو اُٹھانا پڑرہا ہے۔

    وزن، اوزان اور میزان پر اتنی طویل گفتگو صرف ایک مختصر سی بات پوچھنے کے لیے کی گئی ہے کہ اپنے بجٹ کو میزانیہ، کہنے میں کیا امر مانع ہے؟ اور کیا ضرورہے کہ ہم اپنی اصطلاحات کے لیے بھی آئی ایم ایف والوں ہی کی طرف دیکھا کریں۔ قومی ذرائع ابلاغ سے سنا ہے کہ اس سال کا بجٹ پہلے آئی ایم ایف نے پاس کیا ہے، پھر رسماًہمارے قومی پارلیمانی اداروں نے۔ یعنی اصلاً ہے یہ آئی ایم ایف ہی کا بجٹ۔ قوم کی اس میں رائے شامل ہے نہ مشورہ۔ بقول خالدؔ عرفان:

    داماد کو نکال کے جب بھی ہوا ہے پیش
    سالوں نے پاس کر دیا سسرال کا بجٹ