ایک شُستہ اور شائستہ خاتون پوچھتی ہیں: "عام بول چال میں جو ہم بولتے ہیں کہوہ عین وقت پر آگیا اور بچوں کے جو نام رکھے جاتے ہیں قرۃ العین، یا نورالعین، تو اِن سب میں عین، کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کا حرف ع، سے کیا تعلق ہے؟"
عین، کے متعلق یہ سوال پڑھ کر ہم تو غین ہو گئے۔ غین ہو جانا، جدید بول چال کا کلمہ ہے۔ قدیم لغات میں نہیں ملے گا۔ اس کا مطلب ہے بیٹھے بیٹھے غائب غُلّا ہو جانا یا ہوش و حواس کھو بیٹھنا۔ شان الحق حقی مرحوم نے اپنے فرہنگِ تلفظ، میں غین، کا مطلب غوطہ اور غافل، بھی لکھا ہے۔ یعنی غین ہوجانا، غوطہ کھا جانے اور غافل ہوجانے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اتنی کیفیات میں بیک وقت مبتلا ہو جانے کا باعث یہ ہے کہ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے۔ مختصر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اس کالم میں عین، کے تمام مفاہیم کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے کی ہم کوشش بھی نہیں کریں گے۔
چلیے سب سے پہلے حرف ع، ہی کو لے لیجے۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی مرحوم لکھتے ہیں: "عربی کا اٹھارہوں، فارسی کا اکیسواں اور اُردو کا چوبیسواں حرف جسے عین مہملہ یا غیر منقوطہ کہتے ہیں [غیر منقوطہ کا مطلب ہے بغیر نقطے والا] اس کا تلفظ اہل عرب سے بہتر کوئی نہیں نکال سکتا، اس کی آواز کنٹھ کے نیچے سے نکلتی ہے"۔
کنٹھ، گلے، حلق یا ٹینٹوے کو کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجے کہ اہلِ عرب ع، کا تلفظ حلق کے اُس حصے سے کرتے ہیں جہاں سے اہلِ عجم صرف قے کیا کرتے ہیں۔
مولوی صاحب مرحوم کی معلومات پرانی ہوگئی ہیں۔ ع، اب اُردو حروفِ تہجی کا چوبیسواں حرف نہیں رہا۔ اُردو نے مولوی صاحب کے وفات پا جانے کے بعد خاصی ترقی کی ہے۔ کچھ مزید حروف تہجی اپنے ذخیرۂ حروف میں شامل کرلیے ہیں، کچھ الفاظ بدل لیے ہیں اور کچھ مفاہیم میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے۔ بھاری آوازوں کو حروفِ تہجی کا درجہ دے دینے کے بعد اب اُردو حروفِ تہجی کی مجموعی تعداد چوّن ہوگئی ہے۔ مقتدرہ قومی زبان، پاکستان کی جاری کردہ معیاری تختی کے مطابق ع، اب اُردو حروفِ تہجی کا پینتیسواں حرف ہے۔ اکیلے اِس حرفِ ع، کے استعمالات بھی کئی عدد ہیں۔ قرآنِ مجید میں ع، رکوع مکمل ہونے کا اشارہ ہے۔ؑ ، کے مخفف کے طور پر بھی ع، لکھا جاتا ہے، مثلاََ حضرت آدمؑ۔ علاوہ ازیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ آگے مصرع آرہا ہے، اشارتاً ع، لکھ دیتے ہیں۔
محترمہ شائستہ نے جو آخری سوال کیا ہے، اُس کا ہم پہلے جواب دیے دیتے ہیں کہ لفظ عین، کا حرف ع، سے بس اتنا تعلق ہے کہ ہم ع، سے عین، لکھتے ہیں۔ ٹی وی والوں کا بس چلے تو الف سے لکھ ماریں۔ ع، سے لکھنے پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ہمارے عزیز دوست اختر عباس جو بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں، حتیٰ کہ الف انار اور ب بلّی، بھی پڑھے ہوئے ہیں، اس بات پرسخت تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ یہ علامہ اقبالؔ کی اُردو کو کیا ہوگیا تھا کہ اُنھوں نےع لڑائی، لکھا؟ یہاں ل، کی آواز تو صاف نکل رہی ہے۔ چناں چہ اقبالؔ کی اصلاح کرکے وہ اس مصرعے کو یوں پڑھا کرتے تھے، ع:
آگیا لام لڑائی، میں اگر وقتِ نماز
یوں بھیلام، کا لڑائی سے گہرا تعلق ہے۔ لام، کا مطلب فوج یا پلٹن ہے اور لام بندی، کا مطلب ہے لڑائی کے لیے لشکر جمع کرنا۔
اب ہم عین اپنے موضوع پر آتے ہیں۔ عربی زبان میں تو عین، کے سو سے زائد معانی ہیں۔ گو کہ اکثر لغت نویسوں نے عین، کے صرف پچاس معانی لکھے ہیں۔ پچاس معانی لکھ کر ہی وہ تھک گئے اور چھک گئے۔ ہم تو خیر پچاس بھی نہیں لکھ سکتے، اس سے پہلے ہی چھک جائیں گے۔ پھر بھیعین، کے کچھ ایسے معانی یہاں لکھے دیتے ہیں جو ہمارے ہاں زیادہ معروف نہیں ہیں، مثلاً: سپہ سالار، جاسوس یا مخبر، شعاعِ آفتاب، اہلِ شہر، اہلِ خانہ، بڑا اور معزز آدمی، ترازو کا جھکاؤ، مسافت میں قریب، مطلوبہ سمت، نقد مال، سرسبز ہونا اور پہرے دار یا نگراں، وغیرہ وغیرہ۔ نہر کو بھی عربی میں عین، کہا جاتا ہے۔ ہم اُردو میں ملکہ زبیدہ کی کھنچوائی ہو ئی نہر کو نہرِ زبیدہ، کہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ نہر، عربی کا لفظ ہے، جس کے معنی دریا کے بھی ہیں، لیکن عرب مصر ہیں نہرِ زبیدہ، کو بھی عینِ زبیدہ، کہنے پر۔ چلیے صاحب کہہ لیجے۔
یہ تو تھے غیر معروف معانی۔ معروف معنوں میں سے عین، کا ایک مطلب آنکھ یا چشم ہے۔ دوسرا مطلب چشمہ۔ وہ چشمہ جو پہاڑوں اور پتھروں سے پھوٹ نکلتا ہے۔ سورۃ الغاشیہ کی بارہویں آیت میں جنت کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اُس میں "عَیُنٌ جَارِیَۃٌ" یعنی بہتا ہوا چشمہ ہوگا۔ آنکھ سے بہنے والا آنسو یاکنویں اور چشمے سے اُبلنے والا پانی مَعِیُن، کہلاتا ہے اور عین، کی جمع عیون، ہے۔
رہا وہ چشمہ جو ناک پر بیٹھ کر دونوں کان پکڑ لیتا ہے، اُس کو بھی ہم عین سے عینک، کہتے ہیں۔ ہم ہی نہیں، ذوقؔ بھی کہا کرتے تھے:
کیوں کر عینک کو نہ آنکھوں سے لگاؤں اے یار
چار آنکھیں ہوئیں تجھ قوتِ بینائی سے
عینک، میں جوعین، ہے اُس کا مطلب آنکھ ہے۔ ذوقؔ کے شعر سے آپ کے علم میں کم از کم اتنا اضافہ تو ہو چکا ہوگا کہ عینک آنکھوں ہی سے لگائی جاتی ہے۔ جب کہ بعض لوگ اسے سربھی چڑھالیتے ہیں۔ چشمِ سر ہی کو عین، کہتے ہیں اور پلک جھپکنے کو طرفۃ العین۔ نظرِ بد بھی عین، ہوتی ہے کہ جو اچھی چیز کو بُری نظر سے دیکھنے پر لگ جاتی ہے۔ جو شے آنکھوں دیکھی ہو وہ عینی، ہوتی ہے۔ ہماری عدالتوں میں کبھی پیشہ ور اور کبھی حقیقی نوعیت کے عینی شاہدین، پیش کیے جاتے ہیں، جو عدالت میں حاضر ہو کر عینی شہادت، پیش کرتے ہیں۔ جب کسی چیز کو آنکھ سے دیکھنے کے بعد ہی یقین آئے تو ایسے یقین کو عین الیقین، کہا جاتا ہے۔ ذوقؔ کا یقین بھی کچھ ایسا ہی ہوگا، عین ممکن ہے:
نہ چھوڑے گی جیتا مجھے چشمِ قاتل
یقیں ہے، یقیں، بلکہ عین الیقیں ہے
قرۃ العین اور نورالعین میں بھی عین، کا مطلب آنکھ ہے۔ قرۃالعین آنکھ کی ٹھنڈک۔ نورالعین آنکھ کا نور، جسے نورچشم بھی کہتے ہیں۔
اب آئیے عین، کے کچھ مزید معنوں کی طرف۔ ہر چیز کی ذات، حقیقت یا جوہر کو عین، کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں عین، اُردو میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: "عین نوازش ہوگی"، "عین فجر کے وقت دھماکا ہوا"، "عین احسان ہوگا اگر آپ عید سے قبل میری رقم ادا کردیں" وغیرہ وغیرہ۔ اخترؔ (شاہِ اودھ) کا شعر ہے:
جس امر میں ہو خوشی تمھاری
میری بھی وہی ہے عین مرضی
عین وقت، یا عین فجر کے وقت، جیسے جملوں میں عین، کا مطلب بالکل ٹھیک وقت، بروقت اور معین وقت لیا جائے گا۔
دو چیزیں یا دو افراد بالکل مشابہ ہوں تو انھیں عین غین، کہتے ہیں یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں، بس نقطے برابر فرق ہوگا۔ ہوبہو کے معنوں میں عین مین، بھی بولتے ہیں، جیسے: "یہ تو عین مین ویسا ہی بکرا ہے جیسا ہم پچھلی عید پر لائے تھے"۔
ایسے بکرے کے لیے آپ عین مین، کی جگہ بعینہٖ، یا عین غین، بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہہ کر دیکھ لیجے کہ بِدک کر سینگ تو نہیں مارتا۔
کل عید ہے، سو، اس کالم کے تمام قارئین کوع، سے عید الاضحی مبارک ہو۔ اگریہ کالم عین عید کے روز شائع ہوتا تو کیا خوب ہوتا۔