ان کالموں میں بالعموم اہلِ صحافت کی غلطی ہائے مضامین، کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ نِکاتِ اغلاط موجودہ حالات اور ذرائع ابلاغ کے مندرجات سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ورقی، برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر سیسہ و سِندُور، کا بڑا چرچا رہا۔ واضح رہے کہ اُردو ذرائع ابلاغ میں چرچا رہا اور ہندی ذرائع ابلاغ میں چرچا رہی۔ اُردو میں چرچا، مذکر بولا جاتا ہے، حالاں کہ ہے ہندی لفظ۔ دیکھیے خواجہ حیدر علی آتشؔ نے بھی اپنی بدنامی بیان کرنے کوچرچا، کا لفظ صیغۂ تذکیر ہی میں استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں:
یہ چرچا اپنی رسوائی کا پھیلا ہے دیاروں میں
کہ مردُم نام لکھتے ہیں سرے پر اشتہاروں میں
چرچا، کی طرح سِندُور بھی ہندی لفظ ہے۔ اس کا ایک املا سِیندُور، ہے۔ دونوں املا میں س، کے نیچے زیر ہے۔ سِندور، زردی مائل سُرخ سفوف ہوتا ہے جوکیمیاوی عمل کرکے سیسے، سے تیار کیا جاتا ہے۔ سِندور کو ہندو مَت میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہندو عورتیں اس کو اپنے سہاگ (یعنی شوہر والی ہونے) کی علامت کے طور پر اپنی مانگ میں بھرتی ہیں۔ جب کہ ہندو پروہت، جن کی مانگ نہیں ہوتی، سر پر چٹیل میدان ہوتا ہے، اپنے ماتھے پر اس کا ٹیکا لگاتے ہیں۔ فیض احمد فیض ؔ اپنی نظم "شام" میں فرماتے ہیں:
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ مَلے، ماتھے پہ سیندور مَلے
سیندور کھابیٹھنے کے نتیجے میں آوازہی بیٹھ جاتی ہے۔ ذوقؔ کو سحر کے طیور کی خاموشی پر یہی شبہہ ہوا تھا:
کیوں نہیں بولتے سحر کے طیور
کیا شفق نے کھلا دیا سیندور؟
جب کہ امیرؔ مینائی اپنے محبوب کی نگاہِ کدورت کی گرد میں اس سفوف کے اثرات کا پتا لگا نے کی کوشش کرتے ہیں:
کی نظر جس پر کدورت سے رہا خاموش وہ
ہے اثر گردِ نگاہِ یار میں سیندور کا
فرہنگِ آصفیہ میں سِندُور کھلا دینا، فعلِ متعدی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے معنی ہیں کسی کو سیندور کھلا کر اُس کی آواز بند کر دینا۔ مجازاً کسی کی زبان بندی کرنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ مثلاً:
"کوئی صحافی سرکار کی سچائی پر سوال اُٹھائے تو اُس کو سِندُور کھلا دیتے ہیں"۔ (اسے کہتے ہیں آپریشن سِندُور،)
حاصلِ کلام یہ کہ سِندُور کھا بیٹھنے کے نتیجے میں بولتی بند ہو جاتی ہے۔ بک بک سے جان چھوٹ جاتی ہے۔
یہ تو تھا سِندور، کا معاملہ۔ اب کچھ بات سیسے، کی بھی ہو جائے۔ کئی اخبارات اور چند ٹیلی وژن چینلوں نے بُنُیَانٌ مَّرُصُوُص، کا ترجمہ آ ہنی دیوار، کیا۔ کچھ نے بعد کو تصحیح کر لی۔ کیا عجب کسی نے سمجھا دیا ہو کہ آہن، (یعنی لوہے)کو تو عربی میں حدید، کہا جاتا ہے۔ کراچی کے مضافات میں واقع کارخانۂ فولادِ پاکستا ن، (Pakistan Steel Mills) کے ملازمین نے شہر سے دُور اپنا ایک الگ گلشن حدید، بسا رکھا ہے۔ لہٰذابُنیانٌ مرصوص، کا ترجمہآ ہنی دیوار، کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس کا درست ترجمہسیسہ پلائی ہوئی دیوار، ہوگا۔
رِصاص، (ر، کے نیچے زیرکے ساتھ) عربی میں سیسے، کو کہا جاتا ہے۔ بندوق کی گولی اور چَھرّے کو بھی رِصاص کہتے ہیں۔ اوّل اوّل بندوق کے چھرے اور گولیاں سیسے ہی سے بنا کرتی تھیں۔ اب بھی بنتی ہوں گی۔ پنسل میں سیسے کا سکہ ڈالا جاتا ہے، سو وہ بھی قلم الرصاص، ہے۔ رِصاص، اسمِ جمع ہے۔ اس کا واحدرصاصہ، ہے۔
ر، پر زبر لگا کر رَصاص، بولیے تو اس کا مطلب ہوگا سیسے کی چیزیں بنانے والا یا سیسے کا کام کرنے والا یا سیسہ بیچنے والا۔ اُردو میں یہ لفظ ان تمام معنوں میں مستعمل رہا ہے۔ قلعی گر، کو بھی رَصاص، کہا جاتا تھا۔ نوراللغات میں رَصاص، کا مطلب رانگ، دیا گیا ہے۔
مرصوص، کا مطلب ہے وہ شے جس میں سیسہ پگھلا کر بھر دیا گیا ہو۔ اُردو میں اس عمل کو سیسہ پلانا، کہتے ہیں۔ سیسہ پلانے، کے مجازی معنی ہیں کسی چیز کو مضبوط ومستحکم کرنا۔ ذوقؔ بھی سیسہ پی گئے تھے۔ شایداُن کے آنسو ہی پگھلا ہوا سیسہ ثابت ہوئے:
لگے سیسہ پلانے مجھ کو آنسو
کہ ہو بنیادِ غم محکم ابھی سے
غم کی ایک بات یہ بھی ہے کہ کسی اچھوت کے کان میں برہمن کے بھجن کی آواز پڑجاتی توسیسہ پگھلا کراچھوت کے کان میں ڈال دیا جاتا۔
اب آئیے "بُنُیَان، کی طرف۔ "بُنُیَان، کی اصل بِناء، ہے۔ اُردو میں بھی بِنا ڈالنا، بولا جاتاہے۔ مطلب بنیاد رکھنا۔ اُردو کا مصدربنانا، بمعنی تعمیر کرنا شایدیہیں سے ماخوذ ہو۔ "کوئی آفت ہی آتی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں" (سلیم احمد)۔ بُنُیَان، کے معنی عمارت یا دیوار کے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی لغت میں انور مسعود صاحب کی مشہورِ زمانہ بَنیان، کے معنی بھی دیے گئے ہیں۔ لکھا ہے:
"سُتُرَۃَ ہِنُدِیِۃ تُلُبَسُ تَحُتَ القَمِیُص، ثَوبِ تَحُتِی"۔
(قمیص کے نیچے پہنا جانے والا ہندوستانی سترپوش، زیر جامہ۔)
کچھ لوگوں نے بُنُیَانٌ مَّرُصُوُص، کو مزید عربی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے بُنُیَانُ المرصُوُص، لکھ دیا۔ اگرچہ یہ عربی ترکیب بھی غلط نہیں ہے، لیکن اصلاً جو اصطلاح بُنُیَانٌ مَّرُصُوُص، اختیار کی گئی تھی، قرآنی آیت سے اخذ کی گئی تھی۔ قرآنِ مجید کی سورۂ صف، آیت نمبر چار میں یہ الفاظ اسی طرح سے آئے ہیں۔ قرآنِ کے الفاظ کاتو زیر، زبر، پیش بھی نہیں بدلا جا سکتا۔ سورۂ صف کی آیت نمبر 4میں فرمایا گیا ہے:
"اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں"۔
سورۂ صف کا نام بھی اسی آیت سے ماخوذ ہے۔ پرانے زمانے میں کسی دیوار کو غیر معمولی طور پر مضبوط کرنا ہوتا تو اُس کی چُنائی کے بعد اُس میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا جاتا تھا۔ اُردو میں بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار، کی تمثیل عام ہے۔ سلطان نور الدین محمود زنگی کے متعلق طالب الہاشمی نے لکھا ہے:
"سلطان نے حکم دیا کہ روضۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم کے گرد ایک گہری خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے"۔
سلطان کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ چاروں طرف خندق کھود کر اس میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا۔
سورۂ صف کی محولہ آیت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار، سے مراد میدانِ جنگ کی ایسی صفیں ہیں جن میں کوئی رخنہ، کوئی خلا یا کوئی دراڑباقی نہ رہے۔ دشمن کے حملوں کے سامنے اس قدر مضبوط رکاوٹ حائل کر دی جائے کہ اُس کے لیے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو۔ صف بندی کی یہ تربیت نماز کے لیے صف بناتے وقت بھی دی جاتی ہے۔ تکبیرِ تحریمہ سے قبل امام صاحب سنت کے مطابق مقتدیوں کو ہدایت کرتے ہیں:
"صفیں سیدھی کر لیجے، قریب قریب ہو جائیے، صفوں میں خلا باقی نہ رہے، کندھے سے کندھا ملا لیجے اور ایڑی سے ایڑی"۔
طویل دعائے شب اور نمازِ فجر کے بعد جب عملِ بُنُیَانٌ مَّرُصُوُص، کا آغاز ہوا تو ہمیں "ملا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور"سمجھانے والے اقبالؔ بہت یاد آئے۔ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی بار "وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل"کی گونج سنی تھی۔
دیکھیے صاحب! دھات تو ایک ہی ہے سیسہ۔ کسی نے اس کے سفوف کا سیندور ماتھے پر مل کر مٹی کی مورتیوں کے آگے اپنا ماتھا ٹیک دیا اور کسی نے اسی سےِ بُنُیَانٌ مَّرُصُوُص، بنا کر نعرۂ تکبیر لگایا اور ناپاک موترجل پینے والوں کو ارضِ پاک میں گھسنے سے روک دیا۔ ساتھ ہی اُن کا سیندور بھی اُنھیں کے حلق میں ٹھونس دیا کہ بک بک سے نجات ملے۔