ہماری خواہش، تمنا اور کوشش یہی رہتی ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کی بھد نہ اُڑے، ان کا مذاق نہ بنے اورعالمی ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں ان کا بھی کچھ وقار اور اعتبار قائم ہوجائے۔ مگر ہمارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ منظورِ خدا کیا ہوتا ہے؟ مولانا ظفر علی خان مدتوں پہلے بتا گئے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس باب میں ایک آیتِ قرآنی کی ترجمانی بھی فرما گئے ہیں:
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مطلب یہ کہ ذرائع ابلاغ اگر خود اپنی حالت بہتر کرنا نہ چاہیں تو ہمارے چاہنے سے کیا ہوگا؟ ان کالموں میں زبان و بیان کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ املا اور تلفظ کی اغلاط کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے۔ مگر ذرائع ابلاغ پر شکل صورت، بناؤ سنگھار، پلکیں، ابرو، لب اور رُخسار، سب کچھ ٹھیک ٹھاک اور ہر طرح کی ٹیپ ٹاپ رکھنے پرتو پوری پوری توجہ دی جاتی ہے، لیکن نہیں توجہ دی جاتی تو اُس مال کا معیار بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی کہ جس مال کے وہ تاجر ہیں۔ زبان کی دُرستی کا ابلاغ کی دُرستی میں بڑا اہم کردار ہے۔ ابلاغ کا سب سے مؤثر ہتھیار، ذریعہ، اوزار، وسیلہ یا آلۂ کار تو زبان ہے۔ اگر آپ کی زبان ہی درست نہیں توابلاغ آپ خاک کریں گے؟
پچھلے دنوں پہل گام کے واقعے کی وجہ سے لفظ سیاح اور لفظ سیاحت، کی ذرائع ابلاغ پر خوب تکرار رہی۔ خوبی ہمارے ذرائع ابلاغ کی یہ تھی کہ اس ضمن میں انھوں نے کوئی غلط خبر نہیں دی۔ مگر خامی یہ رہی کہ غلط تلفظ ماشاء اللہ خوب جی بھر کے نشر کیاگیا۔ ہر دوسرے، تیسرے ٹیلی ویژن چینل سے لفظ سیاحت (سے آحت،)کا تلفظ سَیّاحت، کیا گیا، س، پر زبر اور ی، پر تشدید کے ساتھ۔ ایساکیوں کیا گیا؟ درست تلفظ تالُو تَلے ہوتے ہوئے غلط تلفظ کیوں اپنایا گیا؟ یہ معاملہ بھی پہل گام کے الزام کی طرح تحقیق طلب ہے۔
سِیاحت کو سَیّاحت، کہنے کی غلطی شاید لفظ سَیّاح، کے تلفظ سے طلوع ہوئی۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہے۔ آپ نے جس زبان کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا ہے اُس کے بنیادی قواعد سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ سَیّاح، مبالغے کا صیغہ ہے۔ مطلب ہے بہت سِیاحت کرنے والا۔ بہت گھومنے پھرنے والا۔ سیر سپاٹے کا بہت ہی شوقین، ابن بطوطہ جیسا جہاں گَرد۔ سیّاح، بالکل ایسے ہی مبالغے کا صیغہ ہے جیسے کسی کی بہت مَدُح کرنے والا اُس کا مدّاح، کہلاتا ہے، خلقِ خدا کو بہت فیض پہنچانے والا شخص فَیّاض، ہوتا ہے، اپنی تحریر یا گفتگو میں بہت سے ہم قافیہ الفاظ استعمال کرنے والا فرد لفّاظ، کا لقب پاتا ہے اور معاملات میں بہت مکر سے کام لینے والا مکّار، کا۔
سَیّاح، ہی سے لفظسیّاحی، بنا ہے، جس کا مطلب ہے رُوئے زمین پر خوب چلنا پھرنا، بہت سیر و سفر کرنا، بہت خاک چھاننا اور بہت گھومنا پھرنا۔ میر انیسؔ اپنی مرثیہ گوئی کے متعلق کہتے ہیں:
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سَیّاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؓ کی مدّاحی میں
سیّاحی، کی بہ نسبت سِیاحت، ایک سیدھا سادا لفظ ہے۔ نہایت پُر امن۔ اس میں شدّت پسندی کی گنجائش نہیں۔ سِیاحت کا مطلب ہے سیر و سفر، گھومنا پھرنا، ملکوں اور شہروں کی زیارت۔ اگر ہمارے ماہرینِ ابلاغ کے پاس اپنا دماغ ہوتا اور ان دماغوں میں کسی قدر گُودا بھی ہوتا تو ممکن تھا کوئی شخص سوچ لیتا کہ جب ہم زِیارت کو زَیّارت، ریاست کو رَیّاست اور سِیاست کو سَیّاست، نہیں بولتے تو اس ہلکے پھلکے مشغلے سِیاحت، نے کیا جرم کیا ہے کہ اس کے س، کو زیر سے زبر کرکے اور اس کی ی، پر تشدد کرکرکے اس کوسَیّاحت، کر ڈالاجائے۔ سُنو اے صاحبو! سِیاست، سِیادت، زِیارت اور رِیاست کی طرح اس لفظ کا تلفظ بھی سِیاحت کیا جائے گا، س، کے نیچے زیر اور ی، تشدید کے بغیر۔
سِیاحت سے نسبت رکھنے والی چیزیں سیاحتی، کہلاتی ہیں۔ مثلاً سیاحتی بس، سیاحتی سہولتیں اور سیاحتی مقامات۔ ہمیں نہیں معلوم کہ پہل گام، کوئی سیاحتی مقام ہے یا نہیں؟ مگر پہلے پہل جب ہم نے پہل گام، کا نام سنا تو ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید یہاں کے لوگ پہل کرنے کوہر گام پر سب سے پہلے لپکتے ہوں گے۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ کشمیری زبان میں پہل، چرواہے کو کہتے ہیں اورگام، گاؤں کو۔ ہندی اور بنگلا دونوں زبانوں میں گاؤں کو گرام، کہا جاتا ہے۔ شاید یہی گرام، ہمارے پنجاب اور پوٹھوارپہنچ کرکسی حد تک گراں، ہوگیا ہے:
"کتھے جا سو؟"
"گراں جا ساں! "
مگرکیا عجب کہ کلکتہ سے کشمیر تک آتے آتے گرام، کا ر، کہیں رستے ہی میں گر گیا ہو۔ پہل گرام، کا پہل گام ہوگیا ہو۔ خیر کچھ بھی ہوا ہو، حاصلِ کلام یہ ہے کہ پہل گام، کا مطلب ہے چرواہوں کا گاؤں۔ چرب دست چرواہوں کا گاؤں۔ اقبالؔ نے انھیں چرواہوں کو جب محکوم و مجبور و فقیر دیکھا تو اُنھوں نے بہت رنج کیا:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
سینۂ افلاک سے اُٹھتی ہے آہِ سوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بے دردیِ ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقانِ پیر
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟
بہر کیف، روزِ مکافات کو تو آنا ہے اور وہ آئے گا، ضرور آئے گا۔ خدائے دیر گیر مہلت دیتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان فرماتے ہیں:
نہ جا اُس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اُس کی
ڈر اُس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اُس کا
مگربات تو سیاحت کی ہو رہی تھی۔ سوال یہ تھا کہ پہل گام کوئی سیاحتی مقام ہے یا نہیں؟ سیّاحوں کی ٹولی چرواہوں کے گاؤں، میں سیر و سیاحت کے لیے گئی تھی یا یہ مظلوم لوگ وہاں قتل و غارت کے لیے لے جائے گئے تھے؟ اس واقعے کے بعد دروغ گوئی اور در اندازی کی دھول دھمال ڈال ڈال کر اُڑائی گئی کہ اصل واقعہ اس دھول کی دھند میں چھپ جائے۔ مگرچھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر؟ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا۔ لیکن اب پانسا پلٹ گیا ہے، زمانے نے نئی کروٹ لے لی ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی سب کچھ سامنے آ جائے گا۔
جب تک سب کچھ سامنے آئے، تب تک اپنا تلفظ درست کر لیجے، تاکہ درست بات کا آپ درست زبان میں ابلاغ کر سکیں۔ اگر اس کالم کو پڑھ کر کسی ایک خبرخواں نے بھی اپنی اصلاح کرلی اور سَیّاحت، کی جگہ سِیاحت، بولنا شروع کر دیا تو سمجھ لیجے کہ یہ ساری محنت سُوارت ہوئی اکارت نہیں گئی۔