برادرِ مکرم، سید مکرم علی (مقیم بحریہ ٹاؤن، راولپنڈی) پوچھتے ہیں کہ "قبلہ! آرسی مصحف میں آرسی تو آئینے کو کہتے ہیں، مگریہاں مصحف کا کیا مفہوم ہے؟ اس کا تعلق مصافحہ سے ہے یا صحافت سے؟"
معلوم ہوتا ہے، بھائی مکرم علی، کہ آپ کو اب تک آرسی مصحف، کا تجربہ نہیں ہوا۔ ایساہے توفی الفورتجربہ کرلیجے۔ حصولِ علم کے لیے عملی قدم اُٹھائیے اور شریعت کی اجازت سے استفادہ فرمائیے۔ مگرآرسی مصحف، کی مہم شروع کرنے سے پہلے خسروؔ کی یہ پہیلی پڑھ لیجے:
فارسی بولی آئی نا
ترکی ڈھونڈی پائی نا
ہندی بولوں آر سی آئے
خسروؔ کہے کوئی نہ بتائے
شروع کے تین مصرعوں میں خسروؔ نے کمال کر دیا ہے۔ بظاہر ان تین مصرعوں کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ شاعر کو فارسی زبان نہیں آئی۔ ترکی تلاش کی تو ملی نہیں اور ہندی بولنے لگے توآر، سی شے سامنے آجاتی ہے۔ (آر، [ہندی، اسمِ مؤنث] ایک نوک دار کیل جو کوڑے میں لگائی جاتی ہے یا اُس چھڑی میں جس سے سُست بَیلوں کو ہانکتے ہیں) کمال یہ ہے کہ ان تینوں مصرعوں میں ایک ہی شے کا نام پوشیدہ ہے۔ جس چیز کو فارسی زبان میں آئینہ، کہا جاتا ہے ترکی زبان میں اُسی شے کو پائینہ، کہتے ہیں اور ہندی میں آرسی۔ آئی نا، کی آئینہ سے اور پائی نا، کی پائینہ سے صوتی مناسبت کے سبب پہیلی کو پڑھنے سے زیادہ سننے میں لطف آتا ہے۔ لیجے آرسی پر رندؔ کا ایک رندانہ شعر بھی سن لیجے:
تمام عمر بسر کی نظارہ بازی میں
رہا میں حیرتیِ حُسن آرسی کی طرح
آرسی یاآئینہ حیرت کی علامت ہے۔ حیران انسان بھی آئینے کی طرح آنکھیں پھا ڑ کر ٹکرٹکر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں:
تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کرکے چھوڑوں گا
تو جناب یہ درست ہے کہ آرسی، ہندی زبان میں آئینے کو کہتے ہیں۔ مگر صرف آئینے کو نہیں، درش، یا دیکھنے کو بھی کہتے ہیں۔ درش ہی سے لفظ درشن بنا ہے۔ پہلے زمانے کی عورتیں انگوٹھے میں ایک آئینہ دار انگوٹھی پہنا کرتی تھیں اور اُس میں (اپنا ہی) منہ دیکھتی رہتی تھیں۔ یہ انگوٹھی یا انگوٹھا، بھیآرسی، کہلاتا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے، مگر عورتیں تو نہیں بدلیں، اب بھی چاہیں توانگوٹھے میں انگوٹھی پہن سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طعنہ عام ہے کہ "کبھی آئینے میں اپنی شکل دیکھی ہے؟" اِنھیں معنوں میں کہا جاتا تھا کہ "آرسی تو دیکھو"۔ کوئی شخص اپنی شکل و صورت پر یا اپنے حسن پر ناز کرتا نظر آتا یا اپنی لیاقت سے بڑھ کر کسی بات کا دعویٰ کرنے لگتا تو ایسے موقعے پر یہ یہ فقرہ بولا جاتا۔ یہی فقرہ میر تقی میرؔ سے اُن کا محبوب بھی بول گیا تھا۔ میرؔ صاحب اپنے دیوانِ دوم میں اعتراف کرتے ہیں:
ابر سا روتا جو میں نکلا تو بولا طنز سے
آرسی جا دیکھ گھر، برسے ہے منہ پر نور کیا
گھر کی بزرگ خواتین سے ہم نے آرسی، پر ایک ضرب المثل بھی سن رکھی ہے:
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟
پڑھے لکھے کو فارسی کیا ہے؟
یہ اُس زمانے کی ضرب المثل ہے جب ہمارے تعلیمی اداروں میں فارسی لازماً پڑھائی جاتی تھی۔ تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص پڑھا لکھا ہو اور فارسی نہ جانتا ہو۔ لہٰذا پڑھے لکھے شخص کے لیے فارسی کوئی مسئلہ ہی نہیں تھی۔ ضرب المثل کا یہ دوسرا ٹکڑا ایسے موقعے پر بولا جاتا ہے جب کوئی مسئلہ حل کے لیے اُسی کام کے کسی ماہر کے سامنے پیش کیا جائے۔ رہا پہلا ٹکڑا تواس کا مفہوم یہ ہے کہ ہاتھ میں پہنے ہوئے کنگن کو دیکھنے کے لیے آئینے کی حاجت نہیں۔ مراد، جو بات صاف ظاہرہو اور آنکھوں کے سامنے ہواُس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔
آرسی، کے بعد باری ہے مصحف، کی۔ مصحف، کا تعلق مصافحے سے نہیں ہے۔ آرسی مصحف، میں بھی مصافحے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ مصحف، تو صحیفوں کے مجموعے کو کہتے ہیں اورصحیفہ لکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے یعنی رسالے یا کتاب کو۔ صحیفہ کی جمع صُحف اور صحائف ہے۔ صُحفِ سماوی، آسمان سے اُتری ہوئی کتابیں ہیں۔ اصطلاحاً قرآنِ مجید کے تحریری نسخے کو مصحف، کہا جاتا ہے۔ سورۃ البیّنہ کی دوسری اور تیسری آیت میں بتایا گیاہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلّم)"صُحُفاً مُّطَھَّرۃً" (پاکیزہ صحیفے) پڑھ کر سناتے ہیں، جن میں مُستقل و محکم کتابیں ہیں۔ ان آیات سے استنباط کرکے کہا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی 114سورتیں در اصل 114صحیفے ہیں۔
اہلِ فارس نے چشم و لب و رخسارکے مجموعے یعنی رُخِ محبوب کے لیے بھی مصحف، کا استعارہ استعمال کیا۔ پس اُردو شاعری میں بھی ایسا ہی ہونے لگا۔ ہمارے محبوب جاسوسی ناول نگار ابن صفی مرحوم، جو اسرارؔ ناروی کے نام سے شاعری کرتے تھے، کہتے ہیں:
دِل علیہ السّلام پر لوگو
مُصحفِ رُوئے یار اُترا ہے
گمان غالب ہے کہ ہمارے مشہور لکھنوی شاعر شیخ غلام علی ہمدانی کو کوئی تخلص نہ سوجھا تو وہ مصحفِ رُوئے یار، دیکھ کر مُصحفی ہو گئے۔
آرسی مصحف، ہندوستان کی مسلمان خواتین میں در آنے والی ایک دلچسپ رسم تھی۔ اس رسم کی جزئیات و تفصیلات بہت ہیں۔ مختصریہ کہ نکاح ہو جانے کے بعد دولھا کو زنان خانے میں بلایا جاتا۔ وہاں دولھا دولھن کو آمنے سامنے سرسےسر جوڑکر بٹھایا جاتا۔ دونوں کے درمیان ایک تکیے پر مصحف، (یعنی قرآنِ مجید) رکھ دیا جاتا۔ اب دولھا سے کہا جاتا کہ میاں! مصحف میں سے سورۂ اخلاص نکالو اور پڑھ کر دولھن کے منہ پر دم کرو (آج کل کے دولھوں کی بات نہیں ہو رہی۔ اُس زمانے کے دولھا سورۂ اخلاص درست پڑھ سکتے تھے) اس کے بعد مصحف کے ساتھ آئینہ بھی رکھ دیا جاتا، تاکہ دولھا مُصحفِ رُوئے یار، بھی دیکھ لے۔ دولھا دولھن کے سروں پر سُرخ رنگ کا زرق برق دوپٹہ تان دیا جاتا تھا۔
دولھا کی بہنیں دولھا پر اپنی اپنی اوڑھنیوں کاآنچل ڈال کر کر گویا اُسے اپنے حفاظتی حصار میں لے لیتی تھیں۔ آئینہ اس لیے بیچوں بیچ تھا کہ دولھن شرم و حیا کی وجہ سے بھرے مجمعے میں دولھا کو براہِ راست نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتی۔ اس پر بھی، یعنی دوپٹوں کے خیمے میں بھی، لاج سےسمٹی سمٹی جاتی تھی۔ حیا کے بوجھ سے پلکیں جھکی رہتیں۔ بڑی بوڑھیوں کے اصرار پر بھی دولھن آنکھیں نہ کھولتی۔ سالیوں کی طرف سے ہنسی مذاق ہوتا رہتا۔ دولھا سے کہا جاتا کہ کہو: "بی بی میں تمھارا غلام، آنکھیں کھولو"۔ دولھن ذرا کی ذرا آنکھیں ٹمٹما بھی دیتی توشور مچ جاتا کہ"آنکھیں کھول دیں"۔ ورنہ دولھا خود ہی اس مشقت ومصیبت سے تنگ آکر جھوٹ موٹ کہہ دیتا کہ "آنکھیں کھول دیں"۔ آنکھیں کھل جانے پر دولھن کو دودھ پلایا جاتا اور اُس کاجھوٹا دودھ دولھا کو پینے کے لیے دیاجاتا کہ محبت بڑھے گی۔
گئے زمانوں کی شرمیلی رسمِ آرسی مصحف کا موجودہ مخلوط تخت عروسی، سے موازنہ کرنے بیٹھیے تو اقبالؔ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ۔۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا