لکھنا تو یہ چاہتے تھے کہ "ہمارے سب سیاسی رہنما، بلا استثنیٰ، غلط اُردو بولنے میں اپنی اپنی مہارت کامظاہرہ اورمقابلہ کر رہے ہیں"۔ مگر لفظ بلا استثنیٰ، پر آکر قلم اٹک گیا۔ صاحبِ قلم بھی جھجک گیا۔ اصل میں سیاست کی بولی صحافت بولتی ہے اور صحافت کی بولی میں "عوام بولنے لگتی ہے"۔ ہم توبھانت بھانت کی بولیاں سُن کر بولا گئے ہیں کہ یہ چمن یوں ہی رہے گا۔ اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے۔
ہم میں سے اکثر افراد، اکثر الفاظ کے استعمال کا بس موقع محل ہی جانتے ہیں، معنی نہیں جانتے۔ تحریر و تقریر میں الفاظ کا استعمال عموماً رسماً، رواجاً اور عادتاًہی کیا جاتا ہے، عمداً، عقلاً اور معناً نہیں۔ مثلاً پاکستانی معاشرے میں عام ہو جانے والی غلط عادت کے مطابق اہم سے اہم اجلاس بھی وقت پر نہیں، بلکہ دیے ہوئے وقت سے گھنٹوں، تاخیرسے شروع ہوتا ہے۔ اِس پر بھی اجلاس کے آغاز کی نوید سنانے والے صاحب عادتاً بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ "اب ہم بلا تاخیراپنے پروگرام آغاز کررہے ہیں۔ میں دعوت دیتاہوں"۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ معلن صاحب کسی سے بلاتاخیر، کے معنی معلوم کرلینے کے بعد مذکورہ اعلان کرتے پھر پہلے مقرر کو دعوت دیتے۔
بلا استثنیٰ، بھی بالعموم عادتاً ہی بولا جاتا ہے۔ استثنیٰ، کے لفظی معنی ہیں دوسرا قرار دینا، جدا کرنا یانکال دینا۔ مفہوم یہ کہ کسی زُمرے، کسی کُلیے یا کسی عام حکم سے کسی شے یاکسی شخص کو علیٰحدہ قرار دینا، الگ رکھنا، الگ جاننا یا الگ کر دینا۔ جس شے یا جس شخص کے ساتھ علیٰحدگی کا یہ خصوصی سلوک کیا جاتا ہے وہ مُستثنیٰ ہو جاتا ہے۔ اسی عمل کو استثنیٰ، کہا جاتا ہے۔ استثنیٰ، کو اُردو میں استثنا، بھی لکھ سکتے ہیں۔
ہاں تو، ہمارے سب سیاسی رہنماغلط اُردو بولنے میں اپنی اپنی مہارت کامقابلہ کر رہے ہیں، مگرحضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ، اللہ اس ملاکھڑے، سے مستثنیٰ ہیں۔ سچ پوچھیے توموجودہ سیاسی رہنماؤں میں مولانا صاحب ہی ہماری دانست میں وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو اپنی گفتگو، اپنے خطاب یا اپنے بیان میں درست اُردو، دُرست تلفظ سے بولنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہی اہتمام آج کے کالم میں مولانا کے ذکر کا سبب بن گیا۔ کل یا پرسوں کی بات ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر ایک خاتون نظامت کار نے بڑے استہزائی انداز میں مولانا کا مشہور فقرہ "تہتر کے آئین کے تناظر میں" درست شین قاف سے دُہرایا پھردیر تک قہقہہ لگایا۔ اس قہقہے پر ہمیں بھی اُتنی ہی دیر تک غصہ آیا۔ اگر ہم اُس نشریے کے شرکا میں بیٹھے ہوتے تو (اُردو کے حروفِ ربط لگا لگا کر انگریزی بولنے والی) اُس بی بی سے پوچھتے:
"مادام! تناظر، کا کیا مطلب ہے؟"
شاید اُن کا جواب سُن کر ہمیں بھی شدید مہنگائی کے اس دور میں ایک زور دار قہقہہ لگانے کا نادر موقع مل جاتا۔ بقول پیرزادہ قاسمؔ:
عجب نہیں کہ ہمارے بھی لب ہنسے ہوں کبھی
ہجومِ غم میں بھلا کس کو یاد رہتا ہے
برقی ذرائع ابلاغ کا یہ منظر، کوئی نیا منظر نہیں ہے۔ اُردو نشریات میں بار بار "Context" بولنا کسی کو بُرانہیں لگتا۔ "رَین واز فالنگ چھماچھم" قسم کی یہ زبان سُن کر کوئی مُسکراتا بھی نہیں۔ لیکن لفظ تناظر، پر قہقہے لگ جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھے ٹھے، والے لہجے میں انگریزی بولنے والوں سے اگراچانک پوچھ لیجے تو وہ "Con"کا مطلب بتا پائیں گے نہ "Text"کا، انگلش بولیں البتہ۔
انگریزی لفظ "Perspective"کے لیے اُردو میں تناظُر، بولاجاتا ہے۔ ہلکا پھلکا لفظ ہے، زبان پر رواں ہے۔ کوئی سمجھائے تو بہ آسانی سمجھ میں آجائے کہ اس لفظ کاتعلق نظر، سے ہے۔ اسی مصدر سے بنے ہوئے بہت سے الفاظ اُردو میں عام ہیں۔ ناظر، ناظرین، ناظرۂ قرآن، نظیر، نظریہ، نظریات، منظر، نظارہ، مناظر، انتظار اور منتظروغیرہ، وغیرہ۔ ان سب میں نظر، ہی کام کرتی ہے۔
تناظُر، کے لفظی معنی ہیں ایک دوسرے کی طرف دیکھنا۔ باہمی نظارہ(ایک قسم کے باہمی نظارے کو مناظرہ، بھی کہا جاتا ہے) مگر تناظُر، کے اصطلاحی معنی ہیں کسی چیز کا گرد و پیش، سِیاق و سِباق، کسی شے سے ظاہری نسبت، سامنے کا منظر یا پس منظر۔ مولانا صاحب اگر ہر سیاسی عمل کو تہترکے آئین کی نسبت سے دیکھتے ہیں تو کیابُرا کرتے ہیں۔ سلیم احمدتو زندگی کے ہر دُکھ کوعشق کے تناظُر میں دیکھا کرتے تھے:
تری نسبت سے دیکھا ہے اسے بھی
غمِ دنیا، غمِ دنیا نہیں ہے
ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں مولانا فضل الرحمٰن کاایک تازہ بیان آیا ہے۔ بیان کی رُو سے اُن کے بغیر اوّل تو کوئی حکومت بنتی نہیں اور بن جائے تو چلتی نہیں۔ آپ کہیں گے بیان سیاسی ہے۔ سیاست کا بھلا اس کالم میں کیا کام؟ بس ہم اسی اعتراض کے منتظر تھے، کہ اِس بہانے اِس کالم میں لفظ سیاست، کے تناظر پر بھی کچھ لکھنے کا موقع ملے۔ توآئیے اس لفظ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
عوامی زبان میں سیاست، کے معنی محض چال بازی اورعیّاری و مکاری کے لیے جانے لگے ہیں، فریب اور دغا بازی کے۔ کوئی کسی سے دھوکا کھا جائے تو کہتا ہے:
"دیکھو! وہ مجھ سے سیاست کرگیا"۔
ملک کے سیاسی بازی گروں سے تو سب ہی دھوکا کھائے بیٹھے ہیں۔
خود سیاسی رہنما بھی اپنی سیاست کو بُرائی کی پوٹ ہی سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں: "اسلام کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے"۔
یقیناََ یہ بات وہ خدانخواستہ اسلام دشمنی میں نہیں، اسلام دوستی ہی میں کہتے ہوں گے۔ کیوں کہ اُنھوں نے سیاسی مشاغل کو ناپاکی اور غلاظت جان کر بصد شوق اپنایا ہے۔ اسلام پاکیزہ اور مقدس دین ہے۔ لہٰذا اسے ہم اپنی ناپاک زندگی سے دور ہی رکھیں تواچھا ہے۔ سیاست میں کام جھوٹ، فریب، دغابازی، مکاری، چال بازی، وعدہ خلافی، خیانت اور اسلامی احکام کی مخالفت سے لیا جاتا ہے۔ اسلام اِن سب بُرائیوں سے روکتا ہے۔ پس اسی باعث ہم نے مسجدوں اور مسجد کی الماریوں میں، وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔
سناہے، ہمارے اسی ملک میں، اسی وطن میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں (اور شاید اب بھی گزر رہے ہوں) جن کی نظر میں معلمی اور تجارت کی طرح سیاست کا شمار بھی پیغمبری پیشوں میں ہوتا ہے۔
اُردو میں بکثرت استعمال ہونے والا لفظ سیاست، اُردو کے دیگر کئی الفاظ کی طرح عربی الاصل ہے۔ عربی میں "سَاسَ یَسُوُسُ" کا مطلب ہے دیکھ بھال کرنا، سدھانا، اصلاح و تربیت کرنا، اُمور کی تدبیر اور انتظام کرنا۔ اسی سے لفظ سائس، یا سائیس، بناجو اصل میں سئیس، ہے۔ اس کا مطلب ہے گھوڑے کی رکھوالی، خدمت اور نگہبانی کرنے والا۔ مَثَل مشہور ہے کہ "علمِ سئیسی، علمِ دریاؤ ُ، یعنی سائیسی کا علم دریا کی طرح گہرا اور وسیع و عریض ہے۔
سیاست بھی ایسا ہی علم ہے۔ بلکہ سیاست، اصلاً سائیسی ہی ہے۔ خلقِ خدا کی خدمت، اُن کی دیکھ بھال، اُن کی فلاح و بہبود اور ان کی انفرادی و اجتماعی ضرورتوں کی تدبیر و انتظام کرنا۔ ان میں سے ہر کام کسی سائیس جیسی مہارت و بصیرت چاہتا ہے۔ لہٰذا سیاست میں قدم رکھنے والوں کو صاحبِ علم، صاحبِ کردار اور صاحبِ بصیرت ہونا چاہیے، مدبر اور منتظم۔ آپ کہیں گے کہ یہ توکڑی شرائط ہیں، نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی(رادھا کی جگہ اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا نام لکھ لیجے) مگر یقین جانیے کہ سب کچھ ممکن ہے، بشرطے کہ نظامِ تعلیم ہمارا ہو، تعلیم کی زبان ہماری قومی زبان ہو۔
تعلیم و تربیت سے سب کچھ سلجھ جاتا ہے۔ دیکھیے نمازِ باجماعت سے دیگر اُخروی و دُنیوی فوائدکے علاوہ ہر شخص کو فرداً فرداً اجتماعیت کی تربیت بھی مل جاتی ہے۔ پوری مسجد میں منتشر بیٹھے لوگ یکایک صف بستہ ہو جاتے ہیں۔ نماز کے امام کا انتخاب جن اُصولوں کے مطابق کیا جاتا ہے اور جو مشاورت کی جاتی ہے وہی تربیت ہے عام زندگی میں اپنے رہنما کے انتخاب کی۔
پیش امام کی پیروی کس انداز سے کی جائے، اُسے غلطی پر کیسے ٹوکا جائے اور خود پیش امام اپنے مقتدیوں کی کن کن سہولتوں کا خیال رکھے، ان سب اُصولوں کو پھیلا کر ان کا اطلاق قومی سیاست پرکر لیجے۔ سب کچھ ممکن ہے، بشرطے کہ تہتر کے آئین کے تناظُر میں (یعنی دستور کی دفعہ 1 25 کے مطابق) قوم کے بچوں کواِن تمام قومی مقاصد کی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔