Saturday, 27 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Abdullah Tariq Sohail
  4. Bhago, Bhoot Hai

Bhago, Bhoot Hai

خدا عرفان صدیقی مرحوم پر رحمت کرے، ان کے برادر خورد محترم شاہد صدیقی کا کالم کسی نے بھیجا جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح مرحوم کو پنڈی اسلام آباد کے راستے میں آتے جاتے دو بار ایک چڑیل نظر آئی جس کا قد لمبا تھا اور اس نے سرخ لپ سٹک لگائی ہوئی تھی اور وہ بہت ڈرائونی تھی۔

خدا جانے کیا ماجرا تھا، وہ سچ مچ کوئی شیطانی مخلوق تھی یا لوگوں کو ڈرا کر لوٹنے والے گروہ کی واردات تھی۔ خیر، اس واقعے سے بے ساختہ ایک بہت پرانا واقعہ یاد آ گیا لیکن یہ واقعہ ہمارے ہاں کا نہیں ہے، بھارتی صوبے یو پی کا ہے اور پاکستان بننے سے پہلے کا ہے۔ ایسے واقعات تو ان گنت پڑھ اور سن رکھے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں، کالم پڑھ کر یہی واقعہ یاد آیا۔

قصہ ایک سرکاری افسر کا ہے جو کسی گاؤں سے واپس شہر آ رہے تھے۔ افسر ہوتے ہوئے بھی پیدل تھے، واپسی کیلئے انہوں نے شارٹ کٹ اختیار کیا اور بیچ راستے کے اچانک انہیں یاد آیا کہ یہ تو وہ راستہ ہے جس پر ایک چڑیل کا راج ہے جسے دیکھ کر بہت سے لوگ بے ہوش اور بیمار ہو چکے ہیں اور اب اس راستے پر کوئی نہیں آتا جاتا سوائے اس کے جسے اشد ضروری ہو یا وہ جو انجان ہو۔ خیر افسر صاحب کے کندھے پر بندوق تھی، نڈر بھی تھے چنانچہ زیادہ فکر مند نہ ہوئے اور چلتے رہے۔ کچھ ہی آگے جا کر ان کا اس چڑیل سے سامنا ہوگیا۔ و ہ کچھ ہی فاصلے پر کھڑی تھی۔ افسر نے دیکھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔ لباس بھی بہت دلفریب پہن رکھا تھا۔ ہونٹوں پر لپ سٹک تھی، بہت بڑی بڑی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ افسر صاحب مسحور ہو گئے۔

چڑیل اور اتنی خوبصورت، کچھ تعجب کی بات نہیں۔ کافی پہلے کی بات ہے، اردو کا ایک ناول "بیسٹ سیلر" ثابت ہوا تھا، اس کا نام تھا جہنمی حور اور اسے لکھا تھا سید نور حسین نام کے ایک ادیب نے۔ اگر حور جہنم کی ہو سکتی ہے تو چڑیل بھی خوبصورت کیوں نہیں ہو سکتی۔ بہرحال، افسر صاحب پر ان آنکھوں نے "مسمریزم" یا "سحر" کر دیا اور وہ سوچنے سمجھنے کی مفلوج صلاحیت کے ساتھ اس کی طرف بڑھتے گئے۔ قریب پہنچے تو چڑیل نے سمت بدلی اور افسر کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ پیچھے پیچھے چلتے رہو۔

یہ اس کے پیچھے چلنے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ چڑیل کے پائوں الٹے ہیں یعنی پچھلی پائی تھی۔ یہ ڈرے لیکن سحر اتنا طاری تھا کہ نہ رکے، نہ پلٹے، اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ ڈر لگ رہا تھا لیکن چلتے رہنے پر مجبور تھے۔

ان کی رفتار قدرے آہستہ ہوئی یا چڑیل کی رفتار تیز تھی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فاصلہ بڑھ چکا تھا۔ چڑیل نے پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تیز چلو۔ لیکن یہ وہ ہاتھ نہیں تھا جو افسر صاحب اب تک دیکھتے آ رہے تھے۔ گورے رنگ کا بھرا بھرا، نرم اور گداز ہاتھ اب لمبے لمبے کالے بالوں سے بھرا، ڈرائونے ہاتھ میں بدل چکا تھا جیسے کسی ریچھ کا ہاتھ ہو، بڑے بڑے مڑے ہوئے ناخن والا ہاتھ، افسر صاحب کو شدید خوف کا جھٹکا لگا۔ اس جھٹکے نے "مسمریزم" کا جال توڑ دیا اور وہ پوری طرح ہوش میں آ گئے۔ کندھے سے بندوق اتاری اور تیز چلتے ہوئے چڑیل کے بالکل پاس جا پہنچے اور بندوق کی نال اس کی پشت سے لگا دی۔ چڑیل کو جیسے بریک لگ گئی، وہ جہاں تھی، وہیں جم گئی۔ اسی اثنا میں افسر نے د یکھا کہ چڑیل کے دو پائوں پیچھے کی طرف ہیں تو دو پاؤں آگے بھی ہیں۔ انوکھی چڑیل تھی، بیک وقت پچھل پائی بھی تھی اور اَگل پائی بھی یعنی کل ملا کے چارپائی یعنی چار پائوں والی۔

افسر نے بندوق کی نال چڑیل کی کمر سے لگاتے لگاتے ذرا سا جھک کر ایک پچھلا پائوں پکڑ کر کھینچا تو وہ ان کے ہاتھ میں آ گیا۔ کسی مصالحے اور چمڑے سے بنے یہ دونوں پائوں مصنوعی تھے۔ افسر صاحب نے بندوق کی نال زور سے چبھوئی اور کہا، چڑیل رانی چلو پیچھے کو مڑو اور میرے آگے آگے چلو، رخ بدلوا کر وہ افسر صاحب چڑیل کو بندوق کی نالی کے سہارے، کئی کلو میٹر پیدل چلا کر چھوٹے سے اس شہر میں لے آئے جہاں وہ تعینات تھے اور اسے تھانے لے جا کر بند کرا دیا۔

تھانے والوں نے چڑیل کی مناسب خلاطر تواضع کی جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے سب ماجرا اگل دیا۔ جنگل میں چھاپہ مارا گیا اور اس کے ساتھی بھتنے بھی گرفتار کر لئے گئے۔ چڑیل کے پاس مسمریزم کی قدرتی اور پیدائشی صلاحیت تھی، یہ راہگیروں کو "مفلوج" کرکے اڈے پر لے آتی جہاں اسے مزید ڈرا کر بے ہوش کر دیا جاتا اور اس کی جیب سے جو کچھ مال تھا، نکال لیا جاتا۔ کچھ لوگ زیور پہنتے ہیں، وہ بھی اتار لیا جاتا۔ زیور یعنی کلائی میں چاندی کا کڑا یا کنگن، انگلی کی انگوٹھی، کان میں مندری یا بالا۔ بے ہوش کو ہوش آتا تو وہ گھر کو دوڑ لگاتا اور کئی کئی روز بخار میں پڑا پھنکارتا رہتا۔ بخار اترنے کے بعد اسے کچھ یاد نہ آتا کہ اس کی جیب سے پیسے کہاں گئے۔

یہی سمجھتا کہ بھاگتے ہوئے گر گئے ہوں گے۔ یوں چڑیل کا راز راز ہی رہا، کسی ایک کو بھی خیال آتا کہ پیسے چڑیل نے نکالے تو بات کھل جاتی کہ چڑیل نہیں، ڈاکوئوں کی کارندی ہے۔ اس افسر کے ہاتھوں راز کھلا اور جنگل کی چڑیل رانی کی کہانی انجام کو پہنچی۔

یہ واقعہ جس طرح یاد آیا، اسی طرح لکھ دیا لیکن لکھنے کا مقصد ہرگز یہ باور کرانا نہیں ہے کہ ایسی چیزیں نہیں ہوتیں، بالکل ہوتی ہیں اور بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اب تو سی سی ٹی وی کیمرے نے ان لوگوں کو بھی قائل کر دیا ہے جو قائل نہیں تھے۔ لیکن جتنے واقعات مشہور ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر نہیں تو بہت سارے اس قسم کی دھوکہ دہی یا وہم پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ ایک آسیب زدہ مکان سے بچوں کے رونے کی آوازیں آتی تھیں۔ کچھ باہمت لوگوں نے اس مکان کو "ھنٹ ڈائون" کرنے کا ارادہ کیا۔ پتہ چلا کہ منشیات کے مجرموں کا ٹھکانا تھا۔ کوئی آس پاس سے گزرتا تو موبائل فون کھول کر اس میں ریکارڈ روتے بچے کی آواز بجا دیتے۔ سنے والے بالعموم بھاگ جاتے۔ کوئی ہمت کرکے آگے بڑھتا تو درخت پر چڑھا ہوا کوئی آدمی اس کی طرف پتھر اچھال دیتا۔ اب تو اس ہمت والے کی ہمت درختوں پر بھی نہیں، بھاگو، ادھر تو بھوت ہی بھوت ہیں۔