Friday, 26 April 2024
    1.  Home/
    2. Asim Khan/
    3. Ahsas Hai, To Insaniyat Hai

    Ahsas Hai, To Insaniyat Hai

    انسان اللہ تعالی کی تخلیق کا خوبصورت شاہکار ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے انسان کو خدوخال کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ محبت، جذبات، اور احساسات جیسی خوبصورت اور انمول نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیے ایسی نعمتیں اور احسان ہے۔ جن کی بدولت اللہ تعالی نے انسان کو اپنی دوسری مخلوقات پر سرداری اور فضیلت کا شرف بخشا ہے۔

    "احساس" یہ وه جذبات اور محبت بھرے رنگ ہیں۔ جنہیں کبھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان کی مثال ٹھنڈی ہوا کے ان جھونکوں کی طرح ہیں۔ کہ جب انسان کے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ تو ان کی لذت سے انسان سوائے سکون اور راحت کے اور کچھ محسوس نہیں کرتا۔

    احساس ہی وہ نعمت ہے۔ جس نے انسانی معاشرے کا توازن برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ احساس ہی ہے جس نے والدین اور بچوں کے درمیان، بہن بھائیوں کے درمیان، استاد اور شاگرد کے درمیان، عزیز و اقارب کے درمیان، چھوٹوں بڑوں کے درمیان، اپنے پرایوں کے درمیان، دوستوں کے درمیان، حتیٰ کہ جتنے بھی انسانی رشتے ہیں۔ محبت و پیار، عزت و احترام اور تمیز کی سرحدوں پر لائنوں کو کھینچا ہوا ہے۔

    اور جو بھی ان سرحدوں اور لائنوں کو پار کرتا ہے۔ تو حقیقت میں وہ پھر انسانیت کی سرحدوں اور لائنوں کو بھی کراس کر جاتا ہے۔ اور معاشرے میں پھر اس کی حیثیت ایک خونخوار درندے جیسی یا اس بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ یہ احساس ہی ہے۔ جو مسکین کی غربت اور لاچاری پر انسان کے اندر طوفان برپا کر دیتا ہے۔

    یہ احساس ہی ہے۔ جو انسان کو اس کی اوقات سے روشناس کراتا ہے۔ جب انسان طاقت اور دولت کے نشے میں بدمست ہو جاتا ہے۔ اور جب انسان فرعون نمرود اور قارون کے نقش قدم پر چلنے لگتا ہے۔ پھر اللہ تعالی کی ذرا سی ڈور کھینچنے پر اسے یہ احساس ہوتا ہے۔ کہ وہ تو گندے نطفے اور گوشت پوست کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جب انسان غلط راستوں پر چلتے چلتے اپنی تباہی کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ تو احساس ہی وہ نعمت ہے۔ جو اسے ان اندھیروں سے روشنیوں کی طرف لے کر آتی ہے۔ اور شاید احساس ہی ایک ایسی نعمت ہے جس کے باعث اللہ تعالی نے تاحال دنیا کا نظام قائم و دائم رکھا ہوا ہے۔

    پاکستان کے مشہور مصنف و پروفیسر اور لیجنڈ اشفاق احمد کے مطابق "کہ ہمیں انسانوں کے مرنے پر نہیں بلکہ احساس کے مرنے پر ماتم منانا چاہئے۔ کیونکہ انسانوں کے مرنے پر تو صبر آ ہی جاتا ہے۔ مگر احساس کے مرنے سے معاشرے بھی مر جاتے ہیں۔" موجودہ دور اور حالات نے کچھ اس طرح رخ لے لیا ہے۔ اور بدنصیبی بھی ہمارے دروازوں پر بار بار دستک دے رہی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں احساس کی حالت اس مریض کی طرح ہو گئی ہے۔ جو نا پوری طرح صحت یاب ہے۔ اور ناپوری طرح بیمار ہے۔

    ہمارے معاشرے میں ماں باپ کی عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ بہن بھائیوں کے رشتوں میں دراڑے آ گئی ہیں۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ صرف نام کے حد تک رہ گیا ہے۔ دوستیاں صرف مطلب کی رہ گئی ہیں۔ رشتہ داریوں کے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں۔لیکن اب بھی احساس کا مریض زندہ ہے۔ اور اگر اس مریض کی ہم نے دیکھ بھال اچھے طریقے سے کی تو ایک دفعہ پھر احساس صحت یاب ہوکر اپنی پرانی حالت میں لوٹ آئے گا۔ اور ہمارا معاشرہ زوال کی سڑک سے یو ٹرن لے کر ایک دفعہ پھر عروج کی سڑک پر آ جائے گا۔

    اور اگر احساس کے اس مریض کو ہم نے ایسے ہی چھوڑ دیا، بہت جلد نہیں تو زیادہ دیر بھی نہیں لگے گی اس کے مرنے میں، اور ہمارا معاشرہ زوال کی سڑک پر سفر طے کرتے کرتے مغرب کے اس معاشرے سے مل جائے گا۔ جو بہت پہلے ہی زوال کی پستیوں میں جا چکا ہے۔ جہاں نہ ماں اور بیٹے کے درمیان تمیز ہے، نا ہی باپ اور بیٹی کے درمیان تمیز ہے۔ جہاں کے سکولوں اور کالجوں کے سٹوڈنٹ اور ٹیچروں کے درمیان جو رشتے ہیں آج کے دور میں شاہد ہی کوئی ان سے نہ واقف ہو۔ اور جہاں عورت کی عزت کو ٹشو پیپر کے سوا کچھ نہیں سمجھا جاتا۔

    مغرب کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں جنہیں صرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ ان کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔ اور اگر ان کی کوئی حیثیت ہوتی تو سب سے پہلے یہ مغرب میں ان عورتوں کے حق میں آواز اٹھاتی۔ امریکہ اور انڈیا دنیا کے وہ ملک ہے جہاں پر ہر ایک منٹ کے بعد ایک عورت کی عزت کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔ تو اس لیے احساس کا ہمارے دلوں میں زندہ رہنا ہمارے معاشرے کے لیے ہر حال اور ہر قیمت پر ضروری ہے۔

    خدارا احساس کے اس مریض کو مرنے سے بچا لیں اور اپنے معاشرے کو زوال کی پستیوں میں جانے سے بچا لیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے معاشرے میں احساس اور محبت جیسی عظیم نعمت کو زندہ و سلامت رکھے۔ اور ہمیں ایک دوسرے کا احساس محسوس کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال کر دے۔